اگر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ روئے ارض پر اللہ کی انسان کیلئے سب سے بڑی نعمت جو کہ آدم و حوا کے توسط سے بنی آدم کو میسر آئی وہ ہے
Right to Live
حق حیات
روئے ارض پر تمام رشتوں اور ناطوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کیذات ہے اور رب العزت کی ربوبیت کا اجراء اور اظہار اس روئے ارض پر جس حوالے سے باقی ہے وہ حق حیات ہے
اسی لئے اللہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے
تقویٰ اختیار کرو اس اللہ کا جس کے واسطے سوال کرتے ہو یعنی ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور جس کے واسطے تمہارے مابین ہر طرح کے رحم کے رشتے قائم ہیں (النساء آئت 1)۔
اس طرح ثابت ہوا کہ اللہ کی طرف سے روئے ارض پر انسان کیلئے سب سے بڑا انعام حق حیات ہے چنانچہ وہ عمل افسد الفساد ہے جو کسی نفس سے یہ حق حیات چھین لے خواہ وہ نفس اسکا اپنا ہو یا کسی دوسرے کا مگر یہ کہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی اجازت ہو۔
اس ارض پر اصول انسانیت دو مدارج پر قائم ہے
حق اللہ ۔۔۔ جس کے حوالے سے حق حیات نصیب ہوا ہے
حق حیات ۔۔۔ جو حق اللہ کے حوالے سے حاصل ہوا ہے اور جس کی بدولت تمام روئے ارض پر اجتماعی و انفرادی حقوق قائم ہوئے ہیں اور جن بنیادوں پر تمام اجتماعی یا انفرادی روابط استوار ہوئے ہیں
روئے ارض پر حق اللہ علی الاطلاق قائم ہے لیکن روئے ارض پر استقرار آدم و تسکین مقصدی ہے اور یہاں اس تعلق سے معرکہءخیر و شر بھی جاری ہے اس لئے حق اللہ کے ساتھ ساتھ ایک اور حق جاری ہوجاتا ہے جو کہ حق خلیفۃاللہ ہے یا حق نائب مناب یا حق رسول اللہ
اس طرح فی الواقع روئے ارض پر تین اصولی مدارج قائم ہوجاتے ہیں
اول ۔۔ حق اللہ
دوم ۔۔ حق خلیفہ
سوم ۔۔ حق حیات
اس طرح حق حیات پورے بنی نوع آدم کیلئے محترم ہے اور کسی بھی طرح یا کسی بھی طریقے سے اسکی حرمت ختم نہیں ہوتی الا یہ کہ اس حق حیات پر حق اللہ یا حق خلیفۃ اللہ قائم ہوجائے یا ن کے ذریعہ اس کی حرمت اٹھالی جائے
Right to Live
حق حیات
روئے ارض پر تمام رشتوں اور ناطوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کیذات ہے اور رب العزت کی ربوبیت کا اجراء اور اظہار اس روئے ارض پر جس حوالے سے باقی ہے وہ حق حیات ہے
اسی لئے اللہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے
تقویٰ اختیار کرو اس اللہ کا جس کے واسطے سوال کرتے ہو یعنی ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور جس کے واسطے تمہارے مابین ہر طرح کے رحم کے رشتے قائم ہیں (النساء آئت 1)۔
اس طرح ثابت ہوا کہ اللہ کی طرف سے روئے ارض پر انسان کیلئے سب سے بڑا انعام حق حیات ہے چنانچہ وہ عمل افسد الفساد ہے جو کسی نفس سے یہ حق حیات چھین لے خواہ وہ نفس اسکا اپنا ہو یا کسی دوسرے کا مگر یہ کہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی اجازت ہو۔
اس ارض پر اصول انسانیت دو مدارج پر قائم ہے
حق اللہ ۔۔۔ جس کے حوالے سے حق حیات نصیب ہوا ہے
حق حیات ۔۔۔ جو حق اللہ کے حوالے سے حاصل ہوا ہے اور جس کی بدولت تمام روئے ارض پر اجتماعی و انفرادی حقوق قائم ہوئے ہیں اور جن بنیادوں پر تمام اجتماعی یا انفرادی روابط استوار ہوئے ہیں
روئے ارض پر حق اللہ علی الاطلاق قائم ہے لیکن روئے ارض پر استقرار آدم و تسکین مقصدی ہے اور یہاں اس تعلق سے معرکہءخیر و شر بھی جاری ہے اس لئے حق اللہ کے ساتھ ساتھ ایک اور حق جاری ہوجاتا ہے جو کہ حق خلیفۃاللہ ہے یا حق نائب مناب یا حق رسول اللہ
اس طرح فی الواقع روئے ارض پر تین اصولی مدارج قائم ہوجاتے ہیں
اول ۔۔ حق اللہ
دوم ۔۔ حق خلیفہ
سوم ۔۔ حق حیات
اس طرح حق حیات پورے بنی نوع آدم کیلئے محترم ہے اور کسی بھی طرح یا کسی بھی طریقے سے اسکی حرمت ختم نہیں ہوتی الا یہ کہ اس حق حیات پر حق اللہ یا حق خلیفۃ اللہ قائم ہوجائے یا ن کے ذریعہ اس کی حرمت اٹھالی جائے
چنانچہ اس تناظر میں ارض کی کیفیت بنیادی طور پر دو طرح کی ہوسکتی ہے
اول ۔۔ وہ کیفیت جب روئے ارض پر حق اللہ، حق خلیفۃاللہ اور حق حیات کی کلی طور پر پاسداری کی جارہی ہو اسے صلاح فی الارض کہتے ہیں
دوم ۔۔ وہ کیفیت جب روئے ارض پر درج بالا تینوں حقوق کی بالکل پاسداری نہ کی جارہی ہو اس کیفیت کو فساد فی الارض کی کیفیت کہتے ہیں
سورۃ المائدہ میں اللہ فرماتا ہے کہ
اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نافذ کیا تھا کہ بے شک جو کوئی قتل کرے ایک نفس کو بغیر کسی فساد فی الارض کے تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کرڈالا اور جس نے زندہ رکھا ایک انسان کو تو گویا اس نے پوری انسانیت کو زندہ رکھا ۔ آئت 32
اس آئت میں سب سے اہم بات یہ نہیں جو نفس سے متعلق ہے بلکہ یہ ہے کہ روئے ارض اپنی کیفیت کے اعتبار سے بہترین حالت میں کب اور کیسے ہوسکتی ہے
اسی لئے کہ اللہ نے اس ارض کو اصلاح پر قائم کردیا تھا مگر سب سے پہلے اس میں فساد جس نقطے سے کیا گیا وہ اسی حرمت کی پامالی کے سبب سے تھا ( ہابیل و قابیل کا واقعہ)۔
اسی لئے ہم جانتے ہیں کہ اس زمین پر سب سے زیادہ اصلاح جب قائم رہی وہ حضرت محمد صلعم کی نبوت کا زمانہ ہے اور اس کے بعد خلفائے راشدہ کا زمانہ جب اس ارض کی اصلاح حقیقی طور پر قائم رہی
اول ۔۔ وہ کیفیت جب روئے ارض پر حق اللہ، حق خلیفۃاللہ اور حق حیات کی کلی طور پر پاسداری کی جارہی ہو اسے صلاح فی الارض کہتے ہیں
دوم ۔۔ وہ کیفیت جب روئے ارض پر درج بالا تینوں حقوق کی بالکل پاسداری نہ کی جارہی ہو اس کیفیت کو فساد فی الارض کی کیفیت کہتے ہیں
سورۃ المائدہ میں اللہ فرماتا ہے کہ
اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نافذ کیا تھا کہ بے شک جو کوئی قتل کرے ایک نفس کو بغیر کسی فساد فی الارض کے تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کرڈالا اور جس نے زندہ رکھا ایک انسان کو تو گویا اس نے پوری انسانیت کو زندہ رکھا ۔ آئت 32
اس آئت میں سب سے اہم بات یہ نہیں جو نفس سے متعلق ہے بلکہ یہ ہے کہ روئے ارض اپنی کیفیت کے اعتبار سے بہترین حالت میں کب اور کیسے ہوسکتی ہے
اسی لئے کہ اللہ نے اس ارض کو اصلاح پر قائم کردیا تھا مگر سب سے پہلے اس میں فساد جس نقطے سے کیا گیا وہ اسی حرمت کی پامالی کے سبب سے تھا ( ہابیل و قابیل کا واقعہ)۔
اسی لئے ہم جانتے ہیں کہ اس زمین پر سب سے زیادہ اصلاح جب قائم رہی وہ حضرت محمد صلعم کی نبوت کا زمانہ ہے اور اس کے بعد خلفائے راشدہ کا زمانہ جب اس ارض کی اصلاح حقیقی طور پر قائم رہی
خلفائے راشد یہ ہیں ، آبو بکر صدیق، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب اور حسن بن علی رضہ )۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment