دہشت گردی کے موضوع پر گذشتہ دو اقساط میں ہونے والی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اس ارض پر کسی بھی نفس کی جان نہ لی جائے ، یہ جان لینا اس ارض پر فساد کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے اس ارض کی اصلاح متاثر ہوتی ہے کسی بھی نفس کی جان لینا صرف اس صورت میں واجب ہے جب کسی نفس کا قصاص لینا ہویا کسی نفس کی جان لینے کیلئے اللہ پاک کی طرف سے خصوصی اجازت ہو
اسی بنیاد پر جہاد کا اعلان کیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر ہی قصاص یا دیت کا فیصلہ اسلامی اصولوں کے مطابق طے کیا جاتا ہے تاکہ کسی کی حق تلفی کا ازالہ اس دنیا میں کیا جاسکے
مغربی دنیا نے ایک لفظ رائج کردیا ہے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے مگر یہ بات ایک حقیقت ہے کہ آج تک اس لفظ کی کوئی واضح تعریف منعقد نہیں کی جاسکی
امت مسلمہ اس معاملے میں شدید ڈیلیما کا شکار ہے
امت میں ایک طبقے کا خیال ہے کہ آج کل جو اعمال دہشت گردی کہلاتے ہیں اسلام انکی اجازت نہیں دیتا یہ اعمال خلاف شرع،ناجائز اور انکے کرنے والا قابل سزا ہے
دوسرے طبقے کے مطابق اہل مگرب جن اعمال کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں وہ دہشت گردی نہیں ہے
جب کہ ایک تیسرے گروہ کا خیال ہے کہ ایسے اعمال کے پیچھے خواہ کیسے درست اسباب کیوں نہ ہوں اسلام ان اعمال کی اجازت نہیں دیتا اور مقصدی طور پر درست ہونےکے باوجود ایسے اعمال دہشت گردی ہیں
اسی طرح امت جہاد کے سلسلے میں بھی اختلافات کا شکار ہے
ایک گروہ کہتا ہے کہ جہاد کا معنی قتال نہیں ہے
دوسرے کا خیال ہے کہ جہاد اگر فرض ہے تو صرف آٓخری نسخے کے طور پر ،، لیکن ایسے حضرات کے نزدیک آخری نسخہ طے کرنے کیلئے کوئی پیمانہ نہیں اس لئے یہ گروہ پہلے گروہ کی طرح ہی ہے
جبکہ چوتھے گروہ کی رائے یہ ہے کہ جہاد بلاشبہ فرض ہے اور دین کا لازمی جز بھی مگر آج امت مسلمہ میں وہ عناصر یا اعمال یا قانونی شخص موجود نہیں جو اس کو نافذ کرے ، انکی مراد خلیفہ یا اسلامی حکومت سے ہے جو کہ جہاد کی فرضیت کو نافذ کرنے کی اہل ہے اور اللہ کی طرف سے خصوصی اجازت کی حامل بھی ہے کہ جب بھی ارض میںفساد برپا دیکھے تو فوری اس فساد کے خاتمے کیلئے جہاد کا اعلان کرے اور تب تک جہاد کرے جب تک کہ ارض اصلاح کی حالت میں دوبارہ واپس نہ آجائے
جبکہ اسلام میں ایک اور گروہ بھی ہے جو کہ نام نہاد علماء پر مشتمل ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جس شخص نے جہاد کا اعلان کیا ہے وہ اس کے نافذ کرنے کا اہل نہیں ہے اور جہاد کا اعلان کرنے کا اختیار صرف علماء کے پاس ہے لہذا یہ جہاد ، جہاد نہیں ہے اور یہی طبقہ اپنے مطالبات منوانے کیلئے حکمرانوں کو کبھی کبھار جہاد کی دھمکی بھی دیتا رہتا ہے
اسی طرح آجکل کے فدائی حملوں کے بارے میں بھی امت میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ خودکشی کے مترادف ہے اور خودکشی حرام ہے لہذا یہ عمل حرام ہے جبکہ دوسرا گروہ اس کے الٹ رائے رکھتا ہے اسی طرح کے سینکڑوں سوالات کو دیکھکر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں اختلافات آراء ہیں اور اختلافات کسی بھی امت میں باعث رحمت ہوتے ہیں جبکہ ایسی بات نہیں ہے اگردنیا کے حالات کا سیاسی ، دینی، تمدنی، معاشرتی ، معاشی اور ثقافتی پہلو سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ کس طرح امت مسلمہ کو معطل کیا جارہا ہے اور اس کو اس کے فرض مقصدی و منصبی سے بھٹکایا جارہا ہے باضابطہ جہاد کے بارے میں اختلافات ہیں لہذا یہود ہنود کو اور خصوصی طور پر شیطان کو اس بارے میں کوئی پریشانی نہیں کہ کوئی مسلمان جہاد کرکے اللہ کے نزدیک ہوسکے(اس بارے میں آئیندہ تحریرکیا جائے گاکہ کیوں شیطان نہیں چاہتا کہ مسلمان جہاد کرتا ہوا کالق حقیقی سے ملے)
جبکہ دوسری طرف مشکوک قسم کے فدائی حملے کروا کروا کے امت مسلمہ کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے امت میں موجود بہت سے مثبت گروہ ایک دوسرے کے مخالف آگئے ہیں
درج ذیل دو احادیث ان موجودہ حالات کی بہترین عکاسی کرتی ہیں
محمد صلعم نے فرمایا تھا میری خواہش ہے کہ میں اللہ کے راستے میں لڑتا ہوا شہید ہوجاؤں ۔ پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید ہوجاؤں اور یہ عمل بار بار دہرایا جائے (خلاصہ حدیث)۔
اسی طرح ایک اور حدیث کہ امت مسلمہ میں فساد اس حد تک بڑھ جائے گا کہ جو قتل کرے گا اسے علم نہیں ہوگا کہ وہ کیوں قتل کررہا ہے اور جو قتل ہورہا ہے اسے علم نہیں ہوگا کہ اسے کس وجہ سے قتل کردیا گیا
اور جہاد کی فرضیت کے بارے میں ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے راستے میںجہاد کرے گا حتیٰ کہ وہ دجال سے بھی جہاد کرے گا
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاد ظہوردجال تک اس امت سے بالکل بھی ساقط نہیں ہوا اور یہ فرض ہے جہاں تک کہ ایک گروہ عیسیٰ عہ کے ساتھ ہوکے دجال سے بھی جہاد کرے گا
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ہدائت یاب کرے اور امت مسلمہ میں اتحاد و یگانگت پیدا کرے آمین
اسی بنیاد پر جہاد کا اعلان کیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر ہی قصاص یا دیت کا فیصلہ اسلامی اصولوں کے مطابق طے کیا جاتا ہے تاکہ کسی کی حق تلفی کا ازالہ اس دنیا میں کیا جاسکے
مغربی دنیا نے ایک لفظ رائج کردیا ہے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے مگر یہ بات ایک حقیقت ہے کہ آج تک اس لفظ کی کوئی واضح تعریف منعقد نہیں کی جاسکی
امت مسلمہ اس معاملے میں شدید ڈیلیما کا شکار ہے
امت میں ایک طبقے کا خیال ہے کہ آج کل جو اعمال دہشت گردی کہلاتے ہیں اسلام انکی اجازت نہیں دیتا یہ اعمال خلاف شرع،ناجائز اور انکے کرنے والا قابل سزا ہے
دوسرے طبقے کے مطابق اہل مگرب جن اعمال کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں وہ دہشت گردی نہیں ہے
جب کہ ایک تیسرے گروہ کا خیال ہے کہ ایسے اعمال کے پیچھے خواہ کیسے درست اسباب کیوں نہ ہوں اسلام ان اعمال کی اجازت نہیں دیتا اور مقصدی طور پر درست ہونےکے باوجود ایسے اعمال دہشت گردی ہیں
اسی طرح امت جہاد کے سلسلے میں بھی اختلافات کا شکار ہے
ایک گروہ کہتا ہے کہ جہاد کا معنی قتال نہیں ہے
دوسرے کا خیال ہے کہ جہاد اگر فرض ہے تو صرف آٓخری نسخے کے طور پر ،، لیکن ایسے حضرات کے نزدیک آخری نسخہ طے کرنے کیلئے کوئی پیمانہ نہیں اس لئے یہ گروہ پہلے گروہ کی طرح ہی ہے
جبکہ چوتھے گروہ کی رائے یہ ہے کہ جہاد بلاشبہ فرض ہے اور دین کا لازمی جز بھی مگر آج امت مسلمہ میں وہ عناصر یا اعمال یا قانونی شخص موجود نہیں جو اس کو نافذ کرے ، انکی مراد خلیفہ یا اسلامی حکومت سے ہے جو کہ جہاد کی فرضیت کو نافذ کرنے کی اہل ہے اور اللہ کی طرف سے خصوصی اجازت کی حامل بھی ہے کہ جب بھی ارض میںفساد برپا دیکھے تو فوری اس فساد کے خاتمے کیلئے جہاد کا اعلان کرے اور تب تک جہاد کرے جب تک کہ ارض اصلاح کی حالت میں دوبارہ واپس نہ آجائے
جبکہ اسلام میں ایک اور گروہ بھی ہے جو کہ نام نہاد علماء پر مشتمل ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جس شخص نے جہاد کا اعلان کیا ہے وہ اس کے نافذ کرنے کا اہل نہیں ہے اور جہاد کا اعلان کرنے کا اختیار صرف علماء کے پاس ہے لہذا یہ جہاد ، جہاد نہیں ہے اور یہی طبقہ اپنے مطالبات منوانے کیلئے حکمرانوں کو کبھی کبھار جہاد کی دھمکی بھی دیتا رہتا ہے
اسی طرح آجکل کے فدائی حملوں کے بارے میں بھی امت میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ خودکشی کے مترادف ہے اور خودکشی حرام ہے لہذا یہ عمل حرام ہے جبکہ دوسرا گروہ اس کے الٹ رائے رکھتا ہے اسی طرح کے سینکڑوں سوالات کو دیکھکر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں اختلافات آراء ہیں اور اختلافات کسی بھی امت میں باعث رحمت ہوتے ہیں جبکہ ایسی بات نہیں ہے اگردنیا کے حالات کا سیاسی ، دینی، تمدنی، معاشرتی ، معاشی اور ثقافتی پہلو سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ کس طرح امت مسلمہ کو معطل کیا جارہا ہے اور اس کو اس کے فرض مقصدی و منصبی سے بھٹکایا جارہا ہے باضابطہ جہاد کے بارے میں اختلافات ہیں لہذا یہود ہنود کو اور خصوصی طور پر شیطان کو اس بارے میں کوئی پریشانی نہیں کہ کوئی مسلمان جہاد کرکے اللہ کے نزدیک ہوسکے(اس بارے میں آئیندہ تحریرکیا جائے گاکہ کیوں شیطان نہیں چاہتا کہ مسلمان جہاد کرتا ہوا کالق حقیقی سے ملے)
جبکہ دوسری طرف مشکوک قسم کے فدائی حملے کروا کروا کے امت مسلمہ کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے امت میں موجود بہت سے مثبت گروہ ایک دوسرے کے مخالف آگئے ہیں
درج ذیل دو احادیث ان موجودہ حالات کی بہترین عکاسی کرتی ہیں
محمد صلعم نے فرمایا تھا میری خواہش ہے کہ میں اللہ کے راستے میں لڑتا ہوا شہید ہوجاؤں ۔ پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید ہوجاؤں اور یہ عمل بار بار دہرایا جائے (خلاصہ حدیث)۔
اسی طرح ایک اور حدیث کہ امت مسلمہ میں فساد اس حد تک بڑھ جائے گا کہ جو قتل کرے گا اسے علم نہیں ہوگا کہ وہ کیوں قتل کررہا ہے اور جو قتل ہورہا ہے اسے علم نہیں ہوگا کہ اسے کس وجہ سے قتل کردیا گیا
اور جہاد کی فرضیت کے بارے میں ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے راستے میںجہاد کرے گا حتیٰ کہ وہ دجال سے بھی جہاد کرے گا
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاد ظہوردجال تک اس امت سے بالکل بھی ساقط نہیں ہوا اور یہ فرض ہے جہاں تک کہ ایک گروہ عیسیٰ عہ کے ساتھ ہوکے دجال سے بھی جہاد کرے گا
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ہدائت یاب کرے اور امت مسلمہ میں اتحاد و یگانگت پیدا کرے آمین
0 comments:
Post a Comment