حضرت علی رضہ علم و فضل میں بھی برتر تھے
محمد صلعم کا ان کیلئے یہ فرمانا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ
اس کی واضح دلیل ہے
آپ رضہ علم کے بے پایاں سمندر تھے، فقہہ میں بھی آپکا پایہ بہت بلند تھا، اسی لئے تو خلفائے رضہ گذشتہ ان سے مشاورت کیا کرتے تھے
آپکی فصاحت و بلاغت بھی بے مثل تھی، آپ حکیم العرب اور خوش البیان تھے، آپکی تحریرات اور خطبات کا مجموعہ نہج البلاغہ اس حقیقت کی مظہر ہے
آپ لکھتے تھے تو حسن تحریر سے صفحہء قرطاس پر چمن کھلا دیتے تھے
تقریر فرماتے تو علم و حکمت کے فردوس جگمگا اٹھتے تھے، آپکی شاعری دم مسیحا کا جواب تھی، جس سے مردہ و غمزدہ دلوں میں بہاریں جاگ اٹھتی تھیں، آپ عربی قواعد کے موجد تھے آپ نے عربی گرامر پر ایک مختصر سا رسالہ اپنے شاگرد ابو الاسود دؤلی کو لکھ کردیا تھاآپ رضہ دشمنوں سے حسن سلوک میں بھی ارفع و اعلیٰ تھے، حدیث رسول کریم صلعم ہے کہ بہادر وہ نہیں کہ جو دشمن کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو اپنے نفس کو زیر کرے ، ایک دفعہ ایک لڑائی میں آپکا ایک حریف گر کر برہنہ ہوگیا تو آپ رضہ اس کو چھوڑ کر الگ کھڑے ہوگئے تاکہ وہ شرمندہ نہ ہو
جنگ جمل میں آپ نے القعقاع بن عمر التمیمی کو بار بار صلح کیلئے انکی طرف روانہ کیا مگر شر پسندوں کی رائے ام المؤمنین کی رائے پر غالب آگئی اور جنگ ناگزیر ہوگئی، ام المؤمنین عائشہ رضہ کی فوج کو شکست کے بعد آپ رضہ نے آگے بڑھ کر ام المؤمنین کی خیریت دریافت کی اور ام المؤمنین کو انہی کے طرفدار عبداللہ بن خلف کے مکان میں ٹھہرایا اور جنگ جمل میں شریک لوگوں کی نسبت اعلان کروادیا کہ انکا پیچھا نہ کیا جائے، مال غنیمت نہ لوٹا جائے اور زخمیوں پر کوڑے نہ برسائے جائیں
آپ کا سب سے برا دشمن آپکا قاتل ابن ملجم ہوسکتا تھا مگر آپ نے اس سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا اور صرف قصاص کے طور پر اسی طرح ایک ور سے قتل کرنے کی وصیت کی جس طرح اس نے آپ پر وار کیا تھا
محمد صلعم کا ان کیلئے یہ فرمانا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ
اس کی واضح دلیل ہے
آپ رضہ علم کے بے پایاں سمندر تھے، فقہہ میں بھی آپکا پایہ بہت بلند تھا، اسی لئے تو خلفائے رضہ گذشتہ ان سے مشاورت کیا کرتے تھے
آپکی فصاحت و بلاغت بھی بے مثل تھی، آپ حکیم العرب اور خوش البیان تھے، آپکی تحریرات اور خطبات کا مجموعہ نہج البلاغہ اس حقیقت کی مظہر ہے
آپ لکھتے تھے تو حسن تحریر سے صفحہء قرطاس پر چمن کھلا دیتے تھے
تقریر فرماتے تو علم و حکمت کے فردوس جگمگا اٹھتے تھے، آپکی شاعری دم مسیحا کا جواب تھی، جس سے مردہ و غمزدہ دلوں میں بہاریں جاگ اٹھتی تھیں، آپ عربی قواعد کے موجد تھے آپ نے عربی گرامر پر ایک مختصر سا رسالہ اپنے شاگرد ابو الاسود دؤلی کو لکھ کردیا تھاآپ رضہ دشمنوں سے حسن سلوک میں بھی ارفع و اعلیٰ تھے، حدیث رسول کریم صلعم ہے کہ بہادر وہ نہیں کہ جو دشمن کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو اپنے نفس کو زیر کرے ، ایک دفعہ ایک لڑائی میں آپکا ایک حریف گر کر برہنہ ہوگیا تو آپ رضہ اس کو چھوڑ کر الگ کھڑے ہوگئے تاکہ وہ شرمندہ نہ ہو
جنگ جمل میں آپ نے القعقاع بن عمر التمیمی کو بار بار صلح کیلئے انکی طرف روانہ کیا مگر شر پسندوں کی رائے ام المؤمنین کی رائے پر غالب آگئی اور جنگ ناگزیر ہوگئی، ام المؤمنین عائشہ رضہ کی فوج کو شکست کے بعد آپ رضہ نے آگے بڑھ کر ام المؤمنین کی خیریت دریافت کی اور ام المؤمنین کو انہی کے طرفدار عبداللہ بن خلف کے مکان میں ٹھہرایا اور جنگ جمل میں شریک لوگوں کی نسبت اعلان کروادیا کہ انکا پیچھا نہ کیا جائے، مال غنیمت نہ لوٹا جائے اور زخمیوں پر کوڑے نہ برسائے جائیں
آپ کا سب سے برا دشمن آپکا قاتل ابن ملجم ہوسکتا تھا مگر آپ نے اس سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا اور صرف قصاص کے طور پر اسی طرح ایک ور سے قتل کرنے کی وصیت کی جس طرح اس نے آپ پر وار کیا تھا
0 comments:
Post a Comment