معاویہ ہر وقت ڈرتا رہتا تھا کہ کہیں حسن یا حسین رضہ خروج نہ کردٰن کیونکہ معاویہ کسی بھی شرط پر عمل نہ کررہا تھا
نہ کتاب اللہ پر عمل کیا اور نہ سنت نبی صلعم پر (آپ نے دیکھا کہ کس طرح نبی صلعم کےحکم کے خلاف معاویہ نے عبیداللہ ابن زیاد کو ابو سفیان کا بیٹا بنایا اور کھلم کھلا صحیح حدیث نبیuصلعم کی خلاف ورزی کی) یہ صرف ایک واقعہ نہیں اس طرح کے خلاف حدیث و سنت اور سیرت صحابہ کے خلاف اعمال سے تاریخ پر ہے جو معاویہ نے انجام دئے
حتیٰ کے نماز کے میقات کو تباہ کردیا اور جس کسی نے شکائت کی اسے ختم کردیا حجر بن عدی کے قتل کی بشارت محمد صلعم نے دی تھی جسے جنگل میں لیجاکر قتل کیا گیا
خطبات عید و جمعہ میں علی پر شب و ستم جاری رہا اور حسن رضہ کے یاد دلانے پر اور ام سلمیٰ اور عائشہ رضہ کے احادیث بیان کرنے کے باوجود معاویہ باز نہ آیا
حج کو تباہ کیا حتیٰ کے حج افراط کو منع کردیا جسے محمد صلعم نے بڑی مشکلوں سے رائج کیا تھا
زکٰوۃ کے نظام میں غیر مسلم بھرتی کرلئے اور تعلیم کا شعبہ ایک عیسائی کو سونپ دیا
اور آخر میں یزید کیلئے بزور بیعت لینے کی کوشش میں مدینہ والوں پر اور بالخصوص صھابہ کرام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انکو فاسق و فاجر کی بیعت کرنے پر مجبور کردیا
نہ کتاب اللہ پر عمل کیا اور نہ سنت نبی صلعم پر (آپ نے دیکھا کہ کس طرح نبی صلعم کےحکم کے خلاف معاویہ نے عبیداللہ ابن زیاد کو ابو سفیان کا بیٹا بنایا اور کھلم کھلا صحیح حدیث نبیuصلعم کی خلاف ورزی کی) یہ صرف ایک واقعہ نہیں اس طرح کے خلاف حدیث و سنت اور سیرت صحابہ کے خلاف اعمال سے تاریخ پر ہے جو معاویہ نے انجام دئے
حتیٰ کے نماز کے میقات کو تباہ کردیا اور جس کسی نے شکائت کی اسے ختم کردیا حجر بن عدی کے قتل کی بشارت محمد صلعم نے دی تھی جسے جنگل میں لیجاکر قتل کیا گیا
خطبات عید و جمعہ میں علی پر شب و ستم جاری رہا اور حسن رضہ کے یاد دلانے پر اور ام سلمیٰ اور عائشہ رضہ کے احادیث بیان کرنے کے باوجود معاویہ باز نہ آیا
حج کو تباہ کیا حتیٰ کے حج افراط کو منع کردیا جسے محمد صلعم نے بڑی مشکلوں سے رائج کیا تھا
زکٰوۃ کے نظام میں غیر مسلم بھرتی کرلئے اور تعلیم کا شعبہ ایک عیسائی کو سونپ دیا
اور آخر میں یزید کیلئے بزور بیعت لینے کی کوشش میں مدینہ والوں پر اور بالخصوص صھابہ کرام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انکو فاسق و فاجر کی بیعت کرنے پر مجبور کردیا
مروان نے جب مدینہ والوں سے معاویہ کی زندگی میں ہی یزید کیلئے بزور بیعت لینا چاہی اور اس نے مسجد نبوی میں خطبے میں کہا کہ یزید آئیندہ امیر المؤمنین ہے اور یہ ابو بکر اور عمر کی سنت ہے تو عبدالرحمٰن بن ابو بکر صدیق نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اور ان پر تہمت لگاتے ہو ابو بکر نے اپنے خاندان میں سے کسی کو جانشیں نہیں بنایا تھا یہ قیصر و کسریٰ کا طریقہ ہےمگر بدنام ابو بکر و عمر رضہ کوکرتے ہو
مروان بولا اسے گرفتار کرلو مگر وہ بھاگ کر اپنی سگی بہن ام المؤمنین عائشہ رضہ کے حجرے میں داخل ہوگئے مروان نے دروازے پر جاکرجھوٹی بات کہنے لگا کہ( سورۃ احکاف کی فلاں آئت جو کہ ایک کافر کیلئے نازل ہوئی تھی)یہ عبدالرحمٰن کے بارے میں ہی نازل ہوئی تھی
اس پر ام المؤمنین عائشہ رضہ نے پردے کے پیچھے سے فرمایا تو جھوٹا ہے قرآن میں سوائے میری براءت کے کوئی بھی آئت ابو بکر کے گھرانے کیلئے نازل نہیں ہوئی
اور عائشہ رضہ نے مزید فرمایا کہ چپ ہوجا کیا تو وہی نہیں جس پر اور جس کے باپ پر اللہ کے رسول نے لعنت کی تھی
مروان بولا اسے گرفتار کرلو مگر وہ بھاگ کر اپنی سگی بہن ام المؤمنین عائشہ رضہ کے حجرے میں داخل ہوگئے مروان نے دروازے پر جاکرجھوٹی بات کہنے لگا کہ( سورۃ احکاف کی فلاں آئت جو کہ ایک کافر کیلئے نازل ہوئی تھی)یہ عبدالرحمٰن کے بارے میں ہی نازل ہوئی تھی
اس پر ام المؤمنین عائشہ رضہ نے پردے کے پیچھے سے فرمایا تو جھوٹا ہے قرآن میں سوائے میری براءت کے کوئی بھی آئت ابو بکر کے گھرانے کیلئے نازل نہیں ہوئی
اور عائشہ رضہ نے مزید فرمایا کہ چپ ہوجا کیا تو وہی نہیں جس پر اور جس کے باپ پر اللہ کے رسول نے لعنت کی تھی
اس کے بعد مدینہ منورہ میں پرتشدد کاروائیاں شروع ہوگئیں تاکہ یزیدکی بیعت لینے کیلئے رائے عامہ ہموار کی جاسکے (مدینہ والوں کی خبر لینے اور عبداللہ بن زبیر و حسین رضہ کے سلسلے میں معاویہ نے وفات کے وقت بھی وصیت کی تھی جس کو امام طبری نے اور بہت سے دیگر مؤرخوں نے نقل کیا ہے مگر یہ واقعات معاویہ کی زندگی کے ہی ہیں) تو عبدالرحمٰن بن ابو بکر رضہ وہاں سے مکہ آگئے وہاں ایک غار میں چھپے رہے اور وہیں انکی موت واقع ہوئی مگر ام المؤمنین عائشہ رضہ کو ساری زندگی شبہ رہا کہ انکے بھائی کو قتل کیا گیا ہے
اور جب وہ عمرہ کو گئیں تو بھائی کی قبر پا جاکر روئیں کہ کاش اس وقت میں یہاں ہوتی توآخری بار بھائی کو دیکھ لیتی
اس کے بعد حضرت حسن رضہ جو کہ شرائط کی وجہ سے خاموش تھے ورنہ حالات ایسے نہ تھے کہ خاموش رہا جاتا دین کی تباہی جس طرح کی جارہی تھی حضرت حسن رضہ کی طرف سے معاویہ کو ہر وقت خطرہ رہتا تھا ایسے میں ایک گہری اور پرپیچ سازش کے ذریعے انکو زہر دے دیا گیا تاکہ راستے کا پتھر ہمیشہ کیلئے ہٹ جائے
جب زہر دیا گیا تو انکے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے اور حضرت حسین رضہ سے فرمایا کہ مجھے 3 بار زہر دیا گیا مگر اس بار زہر تیز تھا کہ میرا جگر کٹ کر باہرآگیا
حضرت حسین نے پوچھا کہ کون ہے جس نے آپکو زہردیا ہے تو حضرت حسن رضہ نے فرمایا کہ چھوڑو اسے کہ میں جس کے بارے میں گمان رکھتا ہوں شاید وہ نہ ہو اور ناحق میں تہمت کا مرتکب ہو جاؤں
دوران بیماری آپ رضہ نے حضرت عائشہ رضہ سے اجازت مانگی کہ بعدوفات انہیں محمد صلعم کے پہلو میں دفن ہونے دیا جائے انہوں نے اجازت دیدی مگر حضرت حسن رضہ سے فرمایا کہ دفن کے وقت ایک بار پھر ام المؤمنین سے اجازت کا پوچھنا کہ شاید میری بیماری کی وجہ سے اجازت دے دی ہو اگر وہ اجازت دے دیں تو ٹھیک اور اگر امیہ خاندان مزاحم ہو اور فساد کا خدشہ ہوتو پھر بقیع میں دفن کردیان
انکی وفات کے بعد جب انکا جنازہ روضہء محمد صلعم کی طرف دفن کیلئے لیجایا گیا تو مروان مزاحم ہوا اور کہا کہ جب عثمان دفن نہیں ہوسکے تو حسن کو کیوں دفن ہونے دوں
اور جب وہ عمرہ کو گئیں تو بھائی کی قبر پا جاکر روئیں کہ کاش اس وقت میں یہاں ہوتی توآخری بار بھائی کو دیکھ لیتی
اس کے بعد حضرت حسن رضہ جو کہ شرائط کی وجہ سے خاموش تھے ورنہ حالات ایسے نہ تھے کہ خاموش رہا جاتا دین کی تباہی جس طرح کی جارہی تھی حضرت حسن رضہ کی طرف سے معاویہ کو ہر وقت خطرہ رہتا تھا ایسے میں ایک گہری اور پرپیچ سازش کے ذریعے انکو زہر دے دیا گیا تاکہ راستے کا پتھر ہمیشہ کیلئے ہٹ جائے
جب زہر دیا گیا تو انکے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے اور حضرت حسین رضہ سے فرمایا کہ مجھے 3 بار زہر دیا گیا مگر اس بار زہر تیز تھا کہ میرا جگر کٹ کر باہرآگیا
حضرت حسین نے پوچھا کہ کون ہے جس نے آپکو زہردیا ہے تو حضرت حسن رضہ نے فرمایا کہ چھوڑو اسے کہ میں جس کے بارے میں گمان رکھتا ہوں شاید وہ نہ ہو اور ناحق میں تہمت کا مرتکب ہو جاؤں
دوران بیماری آپ رضہ نے حضرت عائشہ رضہ سے اجازت مانگی کہ بعدوفات انہیں محمد صلعم کے پہلو میں دفن ہونے دیا جائے انہوں نے اجازت دیدی مگر حضرت حسن رضہ سے فرمایا کہ دفن کے وقت ایک بار پھر ام المؤمنین سے اجازت کا پوچھنا کہ شاید میری بیماری کی وجہ سے اجازت دے دی ہو اگر وہ اجازت دے دیں تو ٹھیک اور اگر امیہ خاندان مزاحم ہو اور فساد کا خدشہ ہوتو پھر بقیع میں دفن کردیان
انکی وفات کے بعد جب انکا جنازہ روضہء محمد صلعم کی طرف دفن کیلئے لیجایا گیا تو مروان مزاحم ہوا اور کہا کہ جب عثمان دفن نہیں ہوسکے تو حسن کو کیوں دفن ہونے دوں
نوبت جنگ پر جاتی کہ ابو ہریرہ رضہ آئے اور دہائی دی کہ کیا ظلم ہے کہ نواسہء رسول اپنے نانا کے پہلو میں دفن نہیں ہوسکتا، پھر انہوں نے حسین رضہ کو حضرت حسن رضہ کی وصیت یاد دلائی کہ اگر نوبت خون گری تک جائے تو بقیع میں دفن کرنا
اس جگہ شیعہ حضرات بھی ظلم کرتے ہیں اور عائشہ رضہ پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے دفن نہیں ہونے دیا اور وہ خچر پر بیٹھ کر آگئی تھیں یا مروان کو خط لکھا تھا ایسی کوئی روائت نہیں ملی اور نہ ہی انہوں نے اس طرح کی کوئی بات کی بلکہ انہوں نے بخوشی حسن رضہ کو رسول اکرم صلعم کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی
بنو امیہ میں سے کسی نے جنازہ نہیں پڑھایا ماسوائے والیء مدینہ سعید کے کیونکہ والی کی ذمہ داری ہوتی ہے
اس جگہ شیعہ حضرات بھی ظلم کرتے ہیں اور عائشہ رضہ پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے دفن نہیں ہونے دیا اور وہ خچر پر بیٹھ کر آگئی تھیں یا مروان کو خط لکھا تھا ایسی کوئی روائت نہیں ملی اور نہ ہی انہوں نے اس طرح کی کوئی بات کی بلکہ انہوں نے بخوشی حسن رضہ کو رسول اکرم صلعم کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی
بنو امیہ میں سے کسی نے جنازہ نہیں پڑھایا ماسوائے والیء مدینہ سعید کے کیونکہ والی کی ذمہ داری ہوتی ہے
جب حسن رضہ کی وفات کی خبر معاویہ کو پہنچی تو سنن ابن داؤد اور مسند احمد میں تحریر ہے کہ معاویہ نے صحابیء رسول مقدام اور انکے ساتھی کسی کام سے شام گئے تھے ، معاویہ نے انکو بتایا کہ حسن وفات پاگیا ہے تو مقدام رضہ نے افسوس کا اظہار کیا تو معاویہ بولا کیا حسن رضہ کی موت مصیبت ہے جو صدمہ کرتے ہو اس پر مقدام نے کہا میں نے خود دیکھا کہ رسول اللہ صلعم فرماتے تھے کہ حسن مجھ سے ہے اتنے میں ایک درباری بولا کہ وہ تو انگارہ تھا جو بجھ گیا
مقدام رضہ نے جب یہ سنا تو کہا کہ معاویہ تم نے یہ بات کرکے میرا دل غمزدہ کردیا ہے اب میں تبھی یہاں سے جاؤنگا کہ تمہارے دل کو بھی غمزدہ کردوں
اگر میں سچ کہوں تو کہنا کہ ٹھیک ورنہ میرے سامنے ہی کہہ دینا کہ جھوٹ ہے
اس پر معاویہ بولا ٹھیک ہے
مقدام رضہ نے پوچھا قسم کھا کے بتا کیا محمد صلعم نے مرد کیلئے سونا ، ریشمی لباس اور حرام جانورں کو مار کر انکی کھال استعمال کرنے سے منع نہیں کیا
معاویہ نے جواب دیا کہ ہاں منع کیا ہے
تو مقدام نے کہا مگر تم ان میں سے کسی ایک بھی بات پر عمل پیرا نہیں ہپو اور یہ سب کام تیرے گھر میں انجام پاتے ہیں جبکہ تم محمد صلعم کے جانشیں ہونے کا دعویٰ کرتے ہو
اس پر معاویہ بولا کہ مجھے پتہ تھا مقدام کہ میں تم سے جان نہیں چھڑا پاؤں گا
حیرانی ہے کہ معاویہ نے رسول اللہ صلعم کے خاندان کی یہ شان جانی کہ حسن رضہ کی وفات پر خوشی مناتا ہے کہ انگارہ تھا بجھ گیا آفرین ہے مقدام پر کہ وہ ظالم حکمران کے سامنے حق کہنے سے باز نہ آیا اور مومن کامل کو ایسا ہی ہونا چاہئے یہی عالم مزید لکھتے ہیں کہ کیوں معاویہ نے کہا کہ حسن انگارہ تھا کیونکہ ہر کتاب(اسدالغابہ،استعاب از ابن عبدالبر) میں درج ہے کہ شرائط میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ معاویہ کے بعد حسن رضہ خلیفہ ہونگے کیوں کہ اصل حقدار تو حسن رضہ تھے جن کی بیعت 40ہزار سے زائد لوگوں نے کی تھی اسی لئے انکو زہر کے ذریعے راستے سے ہٹادیا گیا کہ کہیں بنا بنایا کھیل نہ بگڑ جائے اور خلافت واپس متقی لوگوں میں نہ چلی جائے
یہاں پر حضرت حسن رضہ کی زندگی کی داتسان بھہ ختم ہوگئی معاویہ کی وفات بعد حضرت حسین رضہ سے بزور بیعت لینے کیلئے یزید نے مدینہ قاصد روانہ کیا وہاں سے حضرت حسین مکہ چلے گئے اور وہاں سے بصرہ قاصد روانہ کئے
واقعات کی ترتیب کیلئے پہلےاس قاصد کے حالات پر مبنی فلم اس لنک پر موجود ہے
سفیر حسین رضہ بجانب بصرہ
اس کے بعد فلم
سایہ برخورشید
اس کے بعد
روز واقعہ
اور اس کے بعد
ستارہء خضرا
اس کے بعد
طفلان مسلم بن عقیل رضہ
اور اس کے بعد
مؤکب الآباء
دیکھیں تاکہ سانحہ کربلا کے واقعات کی ایک درست ترتیب قائم رہے
مقدام رضہ نے جب یہ سنا تو کہا کہ معاویہ تم نے یہ بات کرکے میرا دل غمزدہ کردیا ہے اب میں تبھی یہاں سے جاؤنگا کہ تمہارے دل کو بھی غمزدہ کردوں
اگر میں سچ کہوں تو کہنا کہ ٹھیک ورنہ میرے سامنے ہی کہہ دینا کہ جھوٹ ہے
اس پر معاویہ بولا ٹھیک ہے
مقدام رضہ نے پوچھا قسم کھا کے بتا کیا محمد صلعم نے مرد کیلئے سونا ، ریشمی لباس اور حرام جانورں کو مار کر انکی کھال استعمال کرنے سے منع نہیں کیا
معاویہ نے جواب دیا کہ ہاں منع کیا ہے
تو مقدام نے کہا مگر تم ان میں سے کسی ایک بھی بات پر عمل پیرا نہیں ہپو اور یہ سب کام تیرے گھر میں انجام پاتے ہیں جبکہ تم محمد صلعم کے جانشیں ہونے کا دعویٰ کرتے ہو
اس پر معاویہ بولا کہ مجھے پتہ تھا مقدام کہ میں تم سے جان نہیں چھڑا پاؤں گا
حیرانی ہے کہ معاویہ نے رسول اللہ صلعم کے خاندان کی یہ شان جانی کہ حسن رضہ کی وفات پر خوشی مناتا ہے کہ انگارہ تھا بجھ گیا آفرین ہے مقدام پر کہ وہ ظالم حکمران کے سامنے حق کہنے سے باز نہ آیا اور مومن کامل کو ایسا ہی ہونا چاہئے یہی عالم مزید لکھتے ہیں کہ کیوں معاویہ نے کہا کہ حسن انگارہ تھا کیونکہ ہر کتاب(اسدالغابہ،استعاب از ابن عبدالبر) میں درج ہے کہ شرائط میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ معاویہ کے بعد حسن رضہ خلیفہ ہونگے کیوں کہ اصل حقدار تو حسن رضہ تھے جن کی بیعت 40ہزار سے زائد لوگوں نے کی تھی اسی لئے انکو زہر کے ذریعے راستے سے ہٹادیا گیا کہ کہیں بنا بنایا کھیل نہ بگڑ جائے اور خلافت واپس متقی لوگوں میں نہ چلی جائے
یہاں پر حضرت حسن رضہ کی زندگی کی داتسان بھہ ختم ہوگئی معاویہ کی وفات بعد حضرت حسین رضہ سے بزور بیعت لینے کیلئے یزید نے مدینہ قاصد روانہ کیا وہاں سے حضرت حسین مکہ چلے گئے اور وہاں سے بصرہ قاصد روانہ کئے
واقعات کی ترتیب کیلئے پہلےاس قاصد کے حالات پر مبنی فلم اس لنک پر موجود ہے
سفیر حسین رضہ بجانب بصرہ
اس کے بعد فلم
سایہ برخورشید
اس کے بعد
روز واقعہ
اور اس کے بعد
ستارہء خضرا
اس کے بعد
طفلان مسلم بن عقیل رضہ
اور اس کے بعد
مؤکب الآباء
دیکھیں تاکہ سانحہ کربلا کے واقعات کی ایک درست ترتیب قائم رہے
0 comments:
Post a Comment